جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم
علیہ السلام کو پیدافرمایا اورآپ کے اندرروح پھونکی،
توحضرت آدم علیہ السلام کو فوراً چھینک آئی اورسب سے پہلے حضرت
آدم علیہ السلام نے اللہ کی توفیق سے چھینک پر ”ا
لحمدللہ“ فرمایا ،چھینک آنا اچھی بات ہے ،چھینک انسان کی
صحت کی علامت ہے ،نزلہ کے وقت نیز عام اوقات میں بھی جب
چھینک آتی ہے تو انسان کا دماغ ،کان اور ناک کے راستے صاف ہوتے ہیں،آنکھوں
میں ٹھنڈک پیداہوتی ہے ،سرکا بوجھ کم ہوجاتاہے، جب نومولود بچہ
چھینکتاہے تو والدین اور معالجین چھینک کو بچے کی
تندرستی کی علامت سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں ، غرض کہ چھینک
انسان کی نشاط وچستی کا سبب ہے ،جس سے انسان کو اعمال و طاعات نیز
دنیوی کاموں میں نشاط پیداہوتاہے ،یہی وجہ ہے
کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایا :
إنَّ اللّٰہ یُحِبُ
العُطاسَ (رواہ البخاری عن ابی ھریرة ۱/۹۱۹،۶۲۲۳)
اللہ تعالیٰ چھینک کو
پسند فرماتے ہیں ،(کیونکہ اعمال میں چستی ونشاط کا سبب
ہوتی ہے ) ۔
دین ِاسلام کی خوبی
اورکمال یہ ہے کہ اسلام انسان کو کامل واکمل بنانے کے لیے ہرچھوٹے اور
بڑے ادب سے اس کو آراستہ ومزین کرتاہے؛چنانچہ اسلام نے انسانی ضروریات
میں سے ہرضرورت سے متعلق بہترین آداب وتعلیمات کو پیش کیاہے
،منجملہ ان کے چھینک ہے ،جسے ہم معمولی چیز سمجھتے ہیں،
اس کے آداب کو بھی بیان کیاہے ،لہٰذاہمیں چاہیے
کہ ہم چھینک کے آداب کومعلوم کریں اور ان پرعمل کریں۔
چونکہ چھینک اللہ کی نعمت
ِصحت وتندرستی کی علامت، چستی اور نشاط کا سبب ہے؛اس لیے
چھینک آنے پر الحمدللہ کے ذریعہ اللہ کا شکراداکرنے کو مستقل عبادت
قراردیاگیاہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :
إذا عطس احدکم فلیقل الحمد للہ (رواہ البخاری عن
ابی ھریرة ۱/۹۱۹،۶۲۲۴)
جب تم میں سے کوئی چھینکے
تو الحمد للّٰہ کہے ۔
سب سے پہلے انسان ہمارے داداحضرت آدم علیہ
السلام کو جب چھینک آئی تو اللہ نے آپ کی زبان سے الحمدللہ
کوجاری فرماکر ساری انسانیت کے لیے ایک ادب قراردیا
،شریعت اسلامیہ نے بھی اس کوادب؛ بلکہ مستقل سنت قراردیاہے۔
چھینک
کے آداب
(۱)جب کسی شخص کو چھینک آئے تو الحمد للّٰہ کہے۔ (رواہ البخاری عن ابی
ھریرة ۱/۹۱۹،۶۲۲۴)
یا اَلْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ کُلِّ حَال کہے (رواہ الترمذی عن ابن عمر ۲/۱۰۳)
دونوں صورتیں جائز
ہیں۔
(۲)جب چھینکنے والا اپنی چھینک پر الحمد للہ کہے، تو سننے والا اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے ۔(بخاری۱/۹۱۹،۶۲۲۴)
(۳) یرحمک اللہ کے جواب میں چھینکنے والا یَھْدِیْکُمُ
اللہُ َویُصْلِحُ بَالَکُمْ، یا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ کہے ۔(بخاری۱/۹۱۹،۶۲۲۴)
(۴)چھینکنے والا چھینک کے وقت اپنے چہرے کو کپڑے یا
کم ازکم ہاتھ سے ڈھانک لے (تاکہ چھینک کے وقت ناک اور منہ سے نکلنے والی
ریزش سے کسی کوتکلیف نہ ہو،نیز کھانے پینے کی
چیزوں میں ناک اورمنہ کی رطوبات نہ گریں)۔
(۵)چھینک کے وقت اپنی آواز کو پست رکھے ۔
آپ علیہ السلام چھینک کے
وقت اپنے چہرے کو کپڑے یا ہاتھ سے ڈھانک لیتے تھے اور آوازکو پست کرلیاکرتے
تھے۔ (ابوداوٴد۲/۶۸۶)
(۶)محرم عورتیں چھینک کر الحمدللہ کہیں تومحرم مردوں کے لیے یرحمک اللہ کہنا ضروری ہے،نیز مردمحارم مردکی چھینک
کاجواب دینا بھی ضروری ہے ۔(ہندیہ ۵/۳۲۷)
چھینک
کا جواب
مسلمان بھائی چھینک کر
الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا یہ اس کا شرعی
حق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان بھائی پر دوسرے مسلمان بھائی
کے لیے چھ حقوق ہیں ،جب کوئی مسلمان بھائی بیمارہوجائے
تواس کی عیادت کرے (۲)جب
کسی مسلمان کی وفات ہوجائے تواس کے جنازہ میں شرکت کرے (۳)اگر دعوت دے تو قبول کرے (۴)سلام کرے تو سلام کا جواب دے (۵)چھینک پر الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک
اللہ کہے (۶)مسلمان بھائی کی موجودگی اور غیرموجودگی
میں اس کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرے۔ (مسلم ۲/۲۱۳حقوق المسلم )
جب چھینکنے والا الحمد للہ کہے تو سننے والے پر یرحمک اللہ کہنا بعض علماء کے نزدیک واجب ہے ،(فتاوی ہندیہ
میں یہی قول نقل کیاہے )بعض علماء نے مستحب قراردیاہے
،جمہورعلماء کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے ،(فتاوی ہندیہ میں
واجب لکھاہے )لہٰذا چھینکنے والے کی الحمدللہ سننے والا ایک شخض ہوتوضرور یرحمک اللہ کہنا چاہیے،اگرایک جماعت ہو تو ان میں سے کسی
ایک شخص کی طرف سے یرحمک اللہ کہنا کافی ہے۔(عمدة القاری۱۵/۳۴۰)
مندرجہ ذیل مواقع میں چھینک
کا جواب ضروری نہیں
(۱)جو آدمی چھینک کر الحمد للہ نہ کہے ۔(بخاری۱/۹۱۹،۶۲۲۵)
آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے
فرمایا :
إذَا عَطَسَ
اَحَدُکُمْ فَحَمِدَ اللہَ فَشَمِّتُوْہُ وَانْ لَمْ یَحْمَدِ اللہَ
فَلَاتُشَمِّتُوْہُ (رواہ البخاری۱/۹۱۹)
جب تم میں سے کسی کو چھینک
آئے اوروہ الحمدللہ کہے تو تم جواب دو اگر وہ الحمدللہ نہ کہے تو اس کا جواب مت دو
،لہذاجوشخص اپنی چھینک پر الحمدللہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں
ہے۔
حضرت انس فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوشخص حاضرتھے، دونوں کوچھینک
آئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی چھینک
پر یرحمک اللہ فرمایا دوسرے کی چھینک پر یرحمک اللہ نہیں فرمایا ،اس پر دوسرے شخص نے عرض کیا، یارسول
اللہ! آپ نے اس کے لیے یرحمک اللہ فرمایا، میرے لیے نہیں فرمایا،
آپ نے ارشادفرمایا: اس نے چھینک پر الحمدللہ کہا؛اس لیے وہ جواب کا مستحق ہوا، اورتم نے اپنی چھینک
پر الحمدللہ
نہیں کہا تو تم جواب کے مستحق نہیں ہوئے (متفق علیہ،بخاری۱/۹۱۹ )
(۲) جب آدمی تین مرتبہ سے زیادہ چھینکے،توجواب
دیناضرروری نہیں ہے ،چاہے تو جواب دے؛چاہے تو جواب نہ دے۔
(رواہ ابوداد۲/۶۸۷)
(۳)بے ایمان کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا جائزنہیں ہے ۔
حضرت ابوموسی فرماتے ہیں :
یہودی لوگ رسول اللہ صلی
اللہ وسلم کی خدمت میں چھینکتے تھے (چھینک پر الحمدللہ بھی کہتے )اور یہ امید رکھتے کہ آپ علیہ
السلام جواب میں یرحمک اللہ فرمائیں گے ؛ لیکن آپ علیہ السلام ان کے جواب
میں یرحمک اللہ نہ فرماتے (اس لیے کہ وہ اپنی بے ایمانی
کی وجہ سے اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں؛ لہٰذ ان
کو رحمت کی دعا نہیں دی جاسکتی)بلکہ ان کے جواب میں
آپ علیہ السلام یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ فرماتے (اللہ تم کو ہدایت دیں اور تمہارے احوال
درست فرمائیں )(رواہ ابوداد۲/۶۸۷)
(۴) جمعہ وعیدین کے خطبات کے وقت میں جواب نہ دے
(عمدة القاری۱۵/۳۴۰ )
(۵)اگرکوئی شخص بیت الخلاء میں چھینک کر الحمدللہ کہے تو اس کا جواب بھی لاز م نہیں۔ (عمدة
القاری۱۵/۳۴۰ )
مسئلہ : اگرکسی شخص کو نماز میں
چھینک آگئی اوراس نے بے اختیار الحمدللہ
کہہ دیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی،جو نمازی چھینکنے
والے کے جواب یرحمک اللہ کہے، اس کی نمازفاسدہوجائیگی(ھدایہ ۱/۱۳۵)
جماہی
کے آداب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے
ارشادفرمایا:
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ
العُطَاسَ، وَیُکْرِہُ التَثَاوٴُبَ (رواہ البخاری عن ابی
ھریرة ۱/۹۱۹، ۶۲۲۳)
اللہ تعالیٰ کو جماہی
ناپسندہے ،جب تم میں سے کسی کو جماہی آتی ہے اور وہ شخص
منہ کھولتے ہا، ہا کہتاہے تو شیطان ہنستاہے۔
جماہی زیادہ کھانے ،آنتوں
کے بھرجانے، نفس وطبیعت کے بوجھل ہوجانے اورحواس کی کدورت کی
وجہ سے پیداہوتی ہے ،جوغفلت ،سستی اورسوئے فہم کا سبب بنتی
ہے ،نیز جماہی کے وقت انسان کا چہرہ طبعی حالت پر باقی نہیں
رہتاہے ،جس کی وجہ سے شیطان خوش ہوجاتاہے کہ انسان کی طبعی
حالت بھی متغیرہوئی، نیز اب یہ انسان طاعات واعمال
اوردیگر ضروری امورمیں سستی اور کاہلی کا شکار ہوگا۔
حافظ ابن حجرنے
لکھاہے کہ یہی وجہ ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
عمربھر جماہی نہیں آئی ہے ،جس کی صراحت مصنف ابن شیبہ
کی روایت میں موجودہے ،نیز علامہ خطابی نے مسلمہ کی روایت سے بیان
کیاہے کہ کسی بھی نبی کو جماہی نہیں آئی
۔(فتح الباری ۱۰/۷۱۵)
فَاَمَّالتَثَاوٴُبُ
فَانَّمَا ھُوَمِنَ الشَّیْطَانِ فَاذَا تَثَاوٴَبَ أحَدُکُمْ فَلْیَرُدَّہ
مَا اسْتَطَاعَ (بخاری ۱/۹۱۹)
جماہی شیطان کی طرف
سے ہوتی ہے ،لہٰذاجب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو
جہاں تک ہوسکے اس کو دفع کرے ،(جبڑوں کو مضبوطی سے دبالے ،اگربے قابوہوجائے
تو منہ پر ہاتھ رکھ لے)۔
حضرت ابوسعیدخدری سے روایت ہے آپ علیہ السلام
نے فرمایا :
اِذَا تَثَاوَبَ أحَدُکُمْ فَلْیُمْسِکْ
بِیَدِہ عَلیٰ فَمِہ، فَانَّ الشَّیْطَانَ یَدْخُلُ
(رواہ مسلم ۲/۴۱۳باب العطاس)
جب تم میں سے کسی کو جماہی
آئے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے؛ اس لیے کے شیطان منہ میں داخل
ہوجاتاہے ،(لہٰذا منہ پر ہاتھ رکھے )
علماء نے لکھاہے کہ اگرانسان تلاوت ،دینی
گفتکو وغیرہ میں مشغول ہواور جماہی آجائے تو جماہی کو
مکمل طورسے بندہوجانے کے بعد تلاوت کرے ،جماہی کے وقت ہا، ہا، کرتے ہوئے
تلاوت، دینی باتیں اور ضروری باتیں نہ کرے ۔
***
------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4،
جلد: 98 ، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء